حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ محمد امین شہیدی نے راولپنڈی میں یوم عاشور کے مرکزی جلوس سے خطاب میں کہا: حسین ابن علیؑ کی طرف متوجہ ہونے والا ہر شخص حسینی ہے۔ عزاداری سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا انعقاد اور ماتمی جوانوں کے سینوں پر پڑتے ہوئے ہاتھ یہ بتانے کے لئے ہیں کہ اگرچہ ہم 61 ہجری میں موجود نہیں تھے لیکن آج اس لئے میدان میں نکلے ہیں تاکہ کسی اور یزید کی جرأٔت نہ ہو کہ وہ وقت کے حسینیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے۔
انہوں نے کہا: اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ماتم و جلوس صرف شیعوں سے مخصوص ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ جو بھی عَلَم اور عزاداروں کو دیکھ کر حسینؑ ابن علیؑ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور انہیں اپنا امام و رہبر سمجھتا ہے، وہ حسینی بھی ہے اور کربلائی بھی۔
علامہ امین شہیدی نے کہا: ہم نے جلوسِ عزاداری میں شیعہ سنی برادران کو ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مہم یہ نہیں کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یا کھلے ہوئے، اہم یہ ہے کہ ہم سب کے قلوب پر حسینؑ ابنِ علیؑ کی حکومت ہے اور ہم سب حسینی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: عزاداری، حسینؑ ابن علیؑ کے مشن کو زندہ رکھنے کا باعث ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ گریہ، ماتم اور عزاداری اس انداز سے کریں کہ اپنے اندر روحانی سربلندی کو محسوس کر سکیں۔
علامہ امین شہیدی نے کہا: دشمنانِ نواسہ رسولؐ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ جو کوئی بھی باروح عزاداری کا انعقاد کرتا ہے، اس کے خلاف قانونی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ایف آئی آرز کاٹی جاتی ہیں۔ عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کرنے والے سن لیں کہ یہ جلوس کسی کے باپ کی میراث نہیں، یہ حسینؑ ابن علیؑ کا جلوس ہے۔ غزہ کے بےگناہ مسلمانوں اور افغانستان و نائجیریا کے عزاداروں کی شہادت نے کربلا کی یاد تازہ کی ہے۔ ان لوگوں نے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اور نامِ حسینؑ لے کر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ ہم ہر مظلوم کے ساتھ ہیں اور حسینؑ ابن علیؑ کے نعرہ حریت کے ساتھ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔